Al Ahmad Sarwar poetry 2024 - Deep lines poetry

انہیں کا حق ہے پھولوں پر جو انگاروں پہ چلتے ہیں
حقائق ان سے ٹکرا کر نئے سانچوں میں ڈھلتے ہیں
بڑے ہی سخت جاں ہوتے ہیں جو خوابوں پہ پلتے ہیں
گماں ہوتا ہے جن موجوں پہ اک نقش حبابی کا
انہی سوئی ہوئی موجوں میں کچھ طوفان پلتے ہیں
وہ رات آخر ہوئی تو کیا یہ دن کب رہنے والا ہے
ستارے ماند ہوتے ہیں اگر سورج بھی ڈھلتے ہیں
تلون چشم ساقی میں تغیر وضع رندی میں
ہمارے میکدے میں روز پیمانے بدلتے ہیں
کچھ لوگ تغیر سے ابھی کانپ رہے ہیں
ہم ساتھ چلے تو ہیں مگر ہانپ رہے ہیں
نعروں سے سیاست کی حقیقت نہیں چھپتی
عریاں ہے بدن لاکھ اسے ڈھانپ رہے ہیں
کیا بات ہے شہروں میں سمٹ آئے ہیں سارے
جنگل میں تو گنتی کے ہی کچھ سانپ رہے ہیں
مکڑی کہیں مکھی کو گرفتار نہ کر لے
وہ شوخ نگاہوں سے مجھے بھانپ رہے ہیں
یہ جھوٹ ہے یا سچ ہے سمجھ میں نہیں آتا
سچ بولنے میں ہونٹ مرے کانپ رہے ہیں
حقائق سرد ہو سکتے ہیں سب محراب و منبر کے
مگر وہ خواب جو رندوں کے پیمانے میں ڈھلتے ہیں
جنوں نے عالم وحشت میں جو راہیں نکالی ہیں
خرد کے کارواں آخر انہی راہوں پہ چلتے ہیں
سرورؔ سادہ کو یوں تو لہو رونا ہی آتا ہے
مگر اس سادگی میں بھی بڑے پہلو نکلتے ہیں
کچھ لوگ تغیر سے ابھی کانپ رہے ہیں
ہم ساتھ چلے تو ہیں مگر ہانپ رہے ہیں
نعروں سے سیاست کی حقیقت نہیں چھپتی
عریاں ہے بدن لاکھ اسے ڈھانپ رہے ہیں
کیا بات ہے شہروں میں سمٹ آئے ہیں سارے
جنگل میں تو گنتی کے ہی کچھ سانپ رہے ہیں
مکڑی کہیں مکھی کو گرفتار نہ کر لے
وہ شوخ نگاہوں سے مجھے بھانپ رہے ہیں
یہ جھوٹ ہے یا سچ ہے سمجھ میں نہیں آتا
سچ بولنے میں ہونٹ مرے کانپ رہے ہیں
ہمیں تو مے کدے کا یہ نظام اچھا نہیں لگتا
نہ ہو سب کے لیے گردش میں جام اچھا نہیں لگتا
کبھی تنہائی کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کا
پیام اچھا نہیں لگتا سلام اچھا نہیں لگتا
خدا سے لو لگائیں یا خدائی سے رہے رشتہ
فقط اپنی خودی کا احترام اچھا نہیں لگتا
جبین پر شکن خاصان عالم کی نہیں بھاتی
مگر یہ بھی ہے غوغائے عوام اچھا نہیں لگتا
نہ خوشبو پیرہن کی ہے نہ زلفوں کی نہ باتوں کی
ہمیں یہ جلوۂ بالائے بام اچھا نہیں لگتا
میسر ہو تو قدرے لطف بھی نعمت ہے یاں یارو
کسی کا وعدۂ عیش دوام اچھا نہیں لگتا
یہ سستی لذتوں سستی سیاست کے پجاری ہیں
ہمیں احباب کا سودائے خام اچھا نہیں لگتا
جہاں حرکت نہیں ہوتی وہاں برکت نہیں ہوتی
سرورؔ اب وادئ گل میں قیام اچھا نہیں لگتا
ایک دیوانے کو اتنا ہی شرف کیا کم ہے
زلف و زنجیر سے یک گونہ شغف کیا کم ہے
شوق کے ہاتھ بھلا چاند کو چھو سکتے ہیں
چاندنی دل میں رہے یہ بھی شرف کیا کم ہے
کون اس دور میں کرتا ہے جنوں سے سودا
تیرے دیوانوں کی ٹوٹی ہوئی صف کیا کم ہے
آگ بھڑکی جو ادھر بھی تو بچے گی کیا شے
شعلۂ شوق کی لو ایک طرف کیا کم ہے
میں نے ہر موج کو موج گزراں سمجھا ہے
ورنہ طوفانوں کا رخ میری طرف کیا کم ہے
کالی راتوں میں اجالے سے محبت کی ہے
صبح کی بزم میں اپنا یہ شرف کیا کم ہے
آل احمد سرور
0 Comments