Ahmad Javied shayari in urdu text 2024 - Deep lines in urdu poetry
نہال وصل نہیں سنگ بار کرنے کو
بس ایک پھول ہے کافی بہار کرنے کو
کبھی تو اپنے فقیروں کی دل کشائی کر
کئی خزانے ہیں تجھ پر نثار کرنے کو
یہ ایک لمحے کی دوری بہت ہے میرے لیے
تمام عمر ترا انتظار کرنے کو
کشش کرے ہے وہ مہتاب دل کو زوروں کی
چلا یہ قطرہ بھی قلزم نثار کرنے کو
تو پھر یہ دل ہی نہ لے آؤں خوب چمکا کر
ترے جمال کا آئینہ دار کرنے کو
قبائے مرگ ہو یا رخت زندگی اے دوست
ملے ہیں دونوں مجھے تار تار کرنے کو
بہت سا کام دیا ہے مجھے ان آنکھوں نے
حوالۂ دل ناکردہ کار کرنے کو
احمد جاوید
مگر وہ دیا ہی نہیں مان کر کے
بہت ہم نے دیکھا ہے جی جان کر کے
کبھی دل کو بھی سیر کر جاؤ صاحب
یہ غنچہ بھی ہے گا گلستان کر کے
نظر اس سراپے میں سو جا سے پلٹی
زلیخائی یوسفستان کر کے
وہ جس روز نکلیں جگ اجیارنے کو
یہ دل بھی دکھا لائیو دھیان کر کے
جناب آپ حور و ملک ہوں گے لیکن
سمجھیے گا عاشق کو انسان کر کے
تری لالہ زاری سلامت کہ ہم بھی
کھڑے ہیں کوئی غنچہ ارمان کر کے
مسیح و خضر سر بکف پھر رہے ہیں
کوئی اس پہ مرنا ہے آسان کر کے
مری کشت جاں پر سے گزرا ہے جاویدؔ
سحاب جنوں زور باران کر کے
احمد جاوید
ہماری ہم نفسی کو بھی کیا دوام ہوا
وہ ابر سرخ تو میں نخل انتقام ہوا
یہیں سے میرے عدو کا خمیر اٹھا تھا
زمین دیکھ کے میں تیغ بے نیام ہوا
خبر نہیں ہے مرے بادشاہ کو شاید
ہزار مرتبہ آزاد یہ غلام ہوا
عجب سفر تھا عجب تر مسافرت میری
زمیں شروع ہوئی اور میں تمام ہوا
وہ کاہلی ہے کہ دل کی طرف سے غافل ہیں
خود اپنے گھر کا بھی ہم سے نہ انتظام ہوا
ہوئی ہے ختم در و بام کی کم اسبابی
میسر آج وہ سامان انہدام ہوا
احمد جاوید
کسی کا دھیان مہ نیم ماہ میں آیا
سفر کی رات تھی اور خواب راہ میں آیا
طلوع ساعت شب خوں ہے اور میرا دل
کسی ستارۂ بد کی نگاہ میں آیا
مہ و ستارہ سے دل کی طرف چلا وہ جواں
عدو کی قید سے اپنی سپاہ میں آیا
جہاد غم میں کوئی سست ضرب میری طرح
گرفت میسرۂ اشک و آہ میں آیا
ستارے ڈوب گئے اور وہ ستارہ گر
تھکن سے چور زمیں کی پناہ میں آیا
چراغ ہے مری راتوں کا ایک خواب وصال
جو کوئی پل تری چشم سیاہ میں آیا
دکھی دلوں کی سلامی قبول کرتے ہوئے
نظر جھکائے کوئی خانقاہ میں آیا
احمد جاوید
مجھ سے بڑا ہے میرا حال
تجھ سے چھوٹا تیرا خیال
چار پہر کی ہے یہ رات
اور جدائی کے سو سال
ہاتھ اٹھا کر دل پر سے
آنکھوں پر رکھا رومال
ننگ ہے تکیے داروں کا
پائے طلب یا دست سوال
من جو کہتا ہے مت سن
یا پھر تن پر مٹی ڈال
اجلا اجلا تیرا روپ
دھندلے دھندلے خد و خال
سکھ کی خاطر دکھ مت بیچ
جال کے پیچھے جال نہ ڈال
راج سنگھاسن میرا دل
آن براجے ہیں جگ پال
کس دن گھر آیا جاویدؔ
کب پایا ہے اس کو بحال
احمد جاوید
0 Comments